Justice for junaid hafeez

Justice for junaid hafeez

یہ بدنصیب انسان جنید حفیظ ھے جو بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں لیکچرر تھا۔ انتہائ ذھین اور تعلیمی کوالیفیکیشن نہایت شاندار۔ تقریبًا ساڑھے پانچ سال قبل اس بدقسمت نے یونیورسٹی میں ایک سیمینار کروایا جس کے بعد چند طلباء نے اس پر گستاخئِ رسول ﷺ کا الزام لگایا اور گرفتار ھو گیا۔
جنید کا تعلق راجن پور سے ھے اور ایف ایس سی میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اسے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاھور میں داخلہ مل گیا، لیکن اسے انگلش لٹریچر سے دلچسپی تھی لہٰذا اس نے میڈیکل کے فرسٹ پروفیشنل کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج چھوڑ کر بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں
انگلش لٹریچر میں داخلہ لے لیااور بی اے آنرز میں 38 سالہ ریکارڈ توڑتے ھوۓ 3.99 GPA سکور کیا۔ جنید پاکستان بھر کے ان 5 طلباء میں شامل تھا جنکو شاندار کارکردگی کی بنیاد پر prestigious فل برایئٹ سکالرشپ پر امریکہ میں ماسٹرز کی ڈگری کیلیۓ منتخب کیا گیا۔جنید نے امریکہ کی
جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی سے امریکی لٹریچر، فوٹوگرافی اور تھیٹر میں ماسٹرز ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور اپنا ایم فِل کرنے پاکستان واپس آ گیا، گویا اس نے لاعلمی میں بدقسمتی کی جانب سفر اختیار کر لیا۔ پاکستان پہنچ کر اسے بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی میں لیکچر منتخب کر لیا گیا۔
یونیورسٹی میں بحیثیت مجموعی کنزرویٹیو ماحول تھا تاھم انگلش ڈیپارٹمینٹ کی سربراہ شیریں زبیر کی بدولت ڈیپارٹمینٹ کا ماحول خاصا ریلیکسڈ اور پرسکون تھا۔ جنید عمومًا خواتین کے حقوق کے activists کو لیکچر کیلیۓ بلا کر سیمینار کرواتا تھا تاکہ انکا طلباء کے ساتھ interaction بھی ھو سکے۔
پھر وہ دن آن پہنچا جس دن بدقسمتی نے جنید حفیظ کے در پر دستک دی۔ جنید نے وایئس چانسلر سے اجازت لے کر ایک سیمینار کروایا جسمیں معروف ویمن ایکٹیوسٹ قیصرہ شاھراز کو مدعو کیا۔ قیصرہ PTV کیلیۓ ایک ایوارڈ یافتہ سیریل بعنوان "دل ھی تو ھے" بھی لکھ چکی تھیں۔ قیصرہ کے لیکچر کے اختتام پر
چند طلباء نے قیصرہ اور جنید پر چندگستاخانہ کلمات کی ادایئگی کا الزام لگایا۔ ان الزامات پر جنید حفیظ کوفوری گرفتار کر لیا گیاجبکہ ڈیپارٹمینٹ کی سربراہ شیریں زبیر اورقیصرہ شاھراز کی قسمت اچھی نکلی اور وہ فوری بیرون پاکستان منتقل ھو گیئں۔ ابتدائ سماعت میں استغاثہ نے ایک گواہ پیش کیا
اس گواہ نے سیمینار کے حوالہ سے تو کچھ نہیں کہا البتہ جنید کی بعض تحریروں میں گستاخانہ مواد کا الزام لگایا۔ ان تحریروں میں ردوبدل کیا گیا تھا کیونکہ جنید نے چند کلمات کی خود سے منسوب ھونے کی سختی سے تردید کی۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ جب گواہ سے کہا گیا کہ وہ تحریریں پڑھ کر سناۓ تو
اور گستاخانہ مواد کی نشاندھی کرے تو گواہ نے اعتراف کیا کہ تحریریں چونکہ انگریزی میں ھیں اور وہ انگریزی نہ تو پڑھ سکتا ھے اور نہ سمجھ سکتا ھے۔بہرحال پولیس نے جنید کو لاھور سے گرفتار کیا اور ملتان لاۓ اور پھر اسے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسکا کمپیوٹر ضبط کر لیا گیا اور اس سے
بغیر کسی عدالتی حکم کے، زبردستی اس کا پاس ورڈ اگلوایا گیا اور اسکے خلاف پہلے ذکرکردہ doctored دستاویزات کی روشنی میں پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کت تحت بلاسفیمی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ یہ مارچ 2013 کا احوال ھے۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس اور معروف وکلاء کی راۓ میں
جنید کے خلاف پیش کردہ مواد کی روشنی میں بلاسفیمی کا مقدمہ بنتا ھی نہیں۔ بہرحال اصل بدقسمتی کا آغاز جنید کی گرفتاری کے ھوا۔ جنید کو ساہیوال جیل میں گزشتہ قریب ساڑھے پانچ سال سا رکھا گیا ھے۔ اسے بستر وغیرہ کی کوئ سہولت نہیں اور سنگلاخ فرش پر سوتا ھے۔ گرمیوں میں شدید گرمی اور
سردیوں میں سخت سردی کا سامنا کرتا ھے۔سب سے اذیت ناک بات یہ ھے کہ اس کے کیس میں تاریخوں پر تاریخیں پڑتی جا رھی ھیں اور بحث کی نوبت نہیں آتی۔ اسکی فیملی اور والدہ بیٹے کی گرفتاری سے تاحال گھر سے باھر نہیں نکل سکتیں، کسی شادی بیاہ یا تقریب میں نہیں جا سکتیں جبکہ اس کے
ضعیف والد ھر ھفتے 200 میل کا سفر کر کے بیٹے سے ملنے جاتے ھیں جن سے جیل سٹاف نہایت بدتمیزی سے پیش آتا ھے اور کبھی انہیں بیٹے سے ملنے دیا جاتا ھے اور کبھی بنا ملے واپس بھیج دیا جاتا ھے۔بوڑھا آدمی کہتا ھے اب میں تھکتا جا رھا ھوں لیکن کیا کروں بیٹے کو بے یارو مددگار تو نہیں چھوڑ سکتا
جیل میں جنید کو قید تنہائ میں رکھا گیا ھے۔ اب وکلاء کی صورتحال بھی دیکھ لیں۔ جنید کا مقدمہ کوئ وکیل لیتا ھی نہ تھا اور اس کے والد نے بڑی تگ و دو کر کے ایک وکیل مدثر کو اسکے کیس کی پیروی کیلیۓ آمادہ کیا لیکن پہلے ھی دن تقریبًا 200 وکلاء نے اسکا محاصرہ کر لیا اور اسے
ڈرا دھمکا کر کیس کی پیروی سے دستبردار کروا دیا۔ ایسی زیادتی دیکھ کر ھیومن رایئٹس کمیشن کے سربراہ آئ اے رحمان نے کہہ سن کر کمیشن کے ملتان کے آرگنایئزر راشد رحمان کو جنید کی پیروی کیلیۓ آمادہ کیا۔راشد نہایت کامپیٹینٹ وکیل تھے، انہوں نے کیس کا مکمل مطالعہ کیا،
یونیورسٹی کیمپس جا کر چھان بین کی اور کیس مکمل سمجھ لیا۔راشد وھی وکیل تھے جنہوں نے ملتان میں سینیٹرشیری رحمان کے خلاف درج بلاسفیمی کیس کی پیروی کر کے انکی گلوخلاصی کروائ تھی جس پر دوسرے وکلاء نے انہیں مارا پیٹا بھی تھا لیکن بہادر آدمی تھا، تمام خدشات کے باوجود جنید کا کیس پکڑ لیا
راشد کی پہلی پیشی پر ھی وکیل استغاثہ نے چند دوسرے وکلاء کے ھمراہ جج کے سامنےعدالت میں راشد کو دھمکی دی کہ کیس کی پیروی چھوڑ دو،ورنہ اگلی پیشی پر حاضر نہ ھو پاؤ گے،واقعی وہ اگلی پیشی پر نہ آ سکے،چند دن بعد7مئ 2014 کو راشدکونامعلوم افراد نےدفتر میں گھس کر گولی مار کرراھئ عدم کر دیا
انتہا تو یہ ھے کہ دھمکیوں کے پیش نظر HRCP نے پنجاب حکومت سے تحریرًا راشد رحمان کی حفاظت کی استدعا کی تھی لیکن خادم اعلٰی سمیت کسی نے توجہ نہ دی۔ راشد کے انتقال کے بعد مسلسل دربدر ھونے کے بعد لاھور کے ایک بہادر وکیل نے ستمبر 2014 میں کیس لے لیا تاھم اسکی استدعا ھے کہ
اول تو اسکا نام میڈیا میں نہ لیا جاۓ دویئم کیس کی سماعت لاھور میں ھو۔ اب کیس مسلسل رواں ھے، تاریخوں پر تاریخیں پڑتی رھتی ھیں لیکن کوئ پیش رفت نہیں ھوتی اور جنید آنکھوں میں اس دن کے خواب بساۓ منتظر ھے جب اسکے کیس میں بحث ھو گی اور وہ اپنی بے گناھی ثابت کرے گا۔ ایک تصحیح کر دوں
جنید اس وقت سینٹرل جیل ملتان کے ھائ سیکیوریٹی وارڈ نمبر 2 میں مقید ھے۔اسکا نام آج بھی جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی Mississippy امریکہ کے honor بورڈ پر ھے اور وہ خود ملتان جیل کے فرش پر بیٹھا رھتا ھے۔ ھے کوئ اللہ کا بندہ جو اسکی مدد کو آ سکے؟۔۔ اگر وہ مجرم ثابت ھوتا ھے تو اسے سزا دیں لیکن
لیکن اللہ کے بندو، جنید حفیظ کے کیس میں بحث تو مکمل کرو، قانونی تقاضے تو پورے کرو، اسے امید و مایوسی کے بیچ لٹکا کر تو نہ رکھو۔ میری جناب چیف جسٹس پاکستان، جناب وزیراعظم پاکستان اور جناب آرمی چیف سے مؤدبانہ درخواست ھے اس سلسلے میں ایک بدقسمت انسان کی مدد کو آیئں، اللہ جزا دے گا۔
ریکارڈ کی درستگی کی ضمن میں یہ ذکر کر دوں کہ جنید کے خلاف بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی میں ابتدائ محاذ بنانے والے اسلامی جمیت طلباء کے طالب علم تھے اور بعد میں انکے ساتھ تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے طلباء بھی مل گۓ۔ انہی لوگوں نے جنید حفیظ پر بلاسفیمی کا الزام لگایا۔